قربانی ” کی تاریخ و فضائل کیا ہیں؟ ”

قربانی ” کی تاریخ و فضائل کیا ہیں؟ ”

حضرت ابراہیم علیہ السَّلام ایک بڑے خلیل القد ر پیغمبر تھے ۔ اُن کی دوسری بیوی حضرت ہاجرؔہ’ جو ایک مصری شہزادی تھیں ۔ اُن کے وطن سے بڑے صاحبزادہ حضرت اسماعیٓلؑ تولد ہوےٓ ۔

خواب میں ابراہیم علیہ السّلام کو حکم ہوا۔ اےٓ ابراہیم اپنے ، اےٓ اللہ کے خلیل،  رب کے رضا کے لےٓ اپنی سب سے عزیز چیز کو قربان کرو ۔ تین رات تک مسلسل  آپ نے خواب دیکھا ۔ پہلے خواب میں آپ نے سو اونٹ ذبح کےٓ ۔ پھر دوسرے خواب میں سو اونٹ قربان کےٓ ۔

پھر حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے خواب دیکھا کی میں اپنے بیٹے اسماعیٓل کو ذبح کر رہا ہوں اللہ کی رضا کے لےٓ ۔ آےٓ اپنی زوجہ (بی بی ہاجرہ) سے کہا بیٹے کو تیّار کر دو ۔ ہم نے دوست کی دعوت میں جانا ہے ۔ ویسے’خلیل’ عربی میں سچّے دوست کو ہی کہیتے ہیں ،اور حضرت ابراہیم اللہ کےخلیل کہلاےٓ ۔ رب نے ابراہیم ؑ کو اپنا دوست قرار دیا۔

حضرت ہاجرہ بیٹے کو تیّار کر دیتی ہیں ۔ جب وہ بلوغت کی عمر میں پہنچے، چلنے پھرنے کے قابل ہوےٓ، اللہ سے مانگ مانگ کر لیا گیا بیٹا۔  اب تیرا سال  کی عمر میں ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو لے کر فلسطین سے مکہ مکرمہ کی طرف چلے۔

جب راستے میں یہ منظر دیکھا کہ باپ بیٹے کو اللہ کی رضا کے لےٓ قربان کرنے جا رہے ہیں، تو شیطان ( ابلیس)کے تن بدن میں آگ لگ گیٓ ۔ تو شیطان ابراہیم علیہ السلا م کو روکنے کے لےٓ وسوسے دینے لگا ۔ ابراہیم علیہ السّلام ایک خواب کے سہارے بیٹے کو ذبح کرنے جارہا ہے ، اللہ کو راضی کرنے کےاور بھی طریقے ہیں۔  حضرت خلیل اللہ نے پتّھر(کنکڑیاں) اُٹھا کے مارا۔ کہا ہٹ جا میرے راستے سے  میرے پاس ایک اسماعیؑل  ہے ، ہزار اسماعیؑل ہوتے تو اللہ اراکی رضا کےلےٓ قربان کر دیتے۔

پھر شیطان  حضرت اسماعیؑل کے پاس آیا تو ایہوں نے بھی یہی بات کہی۔ پھر (اثناء)میں ابلیس شیطان  بی بی ہاجرہ کے پاس آہا ۔ جو اسماعیلؑ کو نازوں سے پالی ہویٓ ماں ہیں۔ چھ مہینےکے بچّے کو لا کر وادی غیر زیر ذرا میں بےآب و کے میدان میں جب وہ پرورث کی ہو ، حضرت ہاجرہ نے کہا مجھے لگتا ہے تو ابلیس ہے ۔ میرا شوہر وہ عام انسان نہیں وہ اللہ کے نبی ہیں، اور جو کرتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے کرتے ہیں، اور یہ کہکر کچھ کنکڑریاں اُٹھایٓ اور ابلیس کو مارا ۔

یہی تین لوگوں نے کنکڑیاں ماری تھیں ، جو آج تک ّجمرّۃ میں تینوں مناروں پر حاجی کنکڑیاں مارتے ہیں، یہ سنّتِ ابراہیمی ہے، بزرگوں کی یاد کا نام ہی تو  حج ہے ۔

یہ منظر کیا دل آویز تھا

حضرت ابراہیم علیہ السَّلام ان کو لے کر منٰی کی وادی میں پہنچے ،کہا اے میرے بیٹے ( یا بُنیّا) میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں ۔اب تو بتا کی تیری راےٓ کیا ہے  یہ بات سننے کے بعد لہزا تبدیل نہیں ہوےٓ اسماعیل علیہ السلام نےکہا آپ مجھے صبر کرنے والے میں سے پاےٓ گے ۔

یا عبدِ’ اے میرے والد گرامی ذبح کیا  جو کرنا ہے کیجےٓ ۔ دونوں راضی ہو گےٓ۔ باپ ذبح کرنے پر راضی ہو گےٓ ، اور بیٹا ذبح ہونے پر راضی پو گےٓ۔ منٰی کے پہاڑوں میں یہ کہانی  قیامت تک رقم ہونے جا رہی ہے ۔

آخرکار رضاء الہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹادیا، چھڑی تیز کی، آنکھو ں پر پٹی باندھی اور اُس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے. جلدی جلدی پٹّی کھو لی تو دیکھا ،(سورۂ الصٰفٰت ۱۰۴۔ ۱۰۵)  ذبح ہونے والا بیٹا نہیں دُمبہ تھا بیٹا پاس کھڑاتھا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا آیٓ ۔ اے ابراہیم! تو نے واقعی خواب سچ کر دکھایا ۔ تو نے اپنے گمان میں بیٹے کی گردن پرچھڑی چلایٓ، یہ ہم نےاُس وقفےمیں دُمبہ رکھ دیا۔ ہم انکے بدلے میں ایک دُمبہ  دے دیا ،ہم نے اِس کو پچھلوں کے لےٓ سنّت رکھ  دیا ۔ ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

                                                             قربانی ‘ کے فضا ئل ‘

اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں قربانی کا نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون پہنچتا ہے ۔ بلکہ اللہ کی بارگاہ میں تمہارا تکوہ پہنچتا ہے ۔ قربانی کرنے کی نیت اچھّی ہونی چاہیئے ۔ اسلےٓ کبھی کبھی بہت چھوٹی قربانیاں بھی قبول کر لیتا ہے  ، اور بڑی بڑی بھی رد کر دیتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ ایک جنگ کے موقع پر صحابہ سے فرمایہ  کہ آج اسلام کو پیسے کی اور چندے کی ضرورت ہے  سُو لاوٓ ، اللہ نے جس کو جتنی حیثیت دی ہے ۔

ایک بوڑھی عورت کو پتہ چلا کے  اللہ کے رسول ﷺ  نے اسلام کے لےٓ کھچ طلب فرمایہ ہے  تو اُس نے ایک یہودی کے گھر جا کر اُسے کہا کی چند سیر کھجوریں مجھے قرض دے دے ۔ میں تجھے لوٹا دوگیں چرکھا کاٹ کے ، اور جب کھجوریں لے کر آیٓ ۔ سرکار حضورﷺ کے ہاتھوں میں دے دیا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایہ کہ جتنا یہ ڈھیڑ لگا ہے ، چندے کا اس کی دو دو کھجوریں سارے ڈھیڑ پر رکھ دوُ ۔ کمیّت میں زیادہ نہیں تھی ،بہت مختصر سی کھجوریں تھیں ۔ لیکن سب کے (صد قے) چندے پراُس کا چندہ ملا کر رکھا گیا ۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ  سب کا ایک ایک جگہ رکھا اور اُس کا سب پر پھیلا دیا ۔  حضور رسولﷺ نے فرمایہ اُس بوڑھیا کا اخلاص اتنا ہے کہ اُس کےصد قے میں اللہ نے سب کا قبول کر لیا  ۔ بات قیمت کی نہیں نیت کی ہے ، اگر آپ ستّر ہزار کا بھی جانور خرید کر لاےٓ ، نیت اچھّی نہیں ہے تو سات ہزار والے سے اگے نہیں بڑھ سکتے  ،سات ہزار والے کی نیت اچھّی ہے تو ستّر ہزار والے سےآگےضرور بڑھ جاےٓ گے ۔  نیت بہت اچھّی ہو نی چاہئے۔

قربانی’ کے جانور کا معیّار ‘

جانور میں کویٓ نقش نہ ہو ۔ پہلا ۔ جس کی آنکھ زایٓد ہو، کا نا پن واضے ہو ۔ دوسرا ۔ بیمار، اس کی جلد  صورت سے دیکھ رہا ہو، جس کی بیماری واضے  ہو ۔ تیسرا ۔ لنگڑا ،  دیکھ رہا ہو کہ لنگڑا ہے ۔ چوتھا  ۔ نہایت لا غر  جانور ، چلنے پھرنے کے قابل نہ ہو۔ بوڑھا ہو گیا۔  قسم کا عیب جانور میں نہ ہونا چاہیےٓ ۔

جانور خریدتے وقت ان چیزوں کا دھیان رکھے ۔ کویٓ نقش نہ ہو۔  دانت والا ۔ داتا ہو ۔  نبی کریم ﷺ نے حد یث میں یہ الفاظ فرمایہ (مسلم بخاری ) اس کے تعلق دانت والا ذبح کرو۔ بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اوردنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے ، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔

اونٹ میں سات حصّے ہو تے ہیں ۔گاےٓ ،  بھینس  میں سات حصّے ہو تے ہیں ، اور دنبہ میں ایک حصّہ ہو تا ہے ۔

قربانی کےتعلق

صحیح بخاری کی روایت ہے آپ ﷺ سے جو ثابت ہے قربانی عیدالضحیٰ نماز کے بعد ہونا چاہیےٓ۔ رسولﷺ سب سے پہلےعید الضحیٰ کی نماز کو جاتے عید گاہ، نماز سے آنے کے بعد جانور ذبح کرتے۔ جس نے اس طرح کیا یقینن ہمارے طرقیوں کو یعنی مسلمان کی نیت کو پہنچا ۔  جس نے نماز کے بعد جانور ذبح کیا ۔ جس نے نماز سے پہلے جانور ذبح کیا اُس نےاپنے کھانے کے لےٓ ذبح کیا ، اُس کو جانورذبح کرنے کا ثواب نہیں میلے گا۔

عیدالضحیٰ کے دن کو یوم النحر بھی کہتے ہیں ۔ قربانی سے پہلے عیدالضحیٰ کی نماز پڑھے گے ، عید الضحیی کی نماز پڑھ کر عید گاہ سے واپس آکر قربانیاں کرے گے ۔  قربانی یر وہ شخص کرے جو قربانی کی طاقت رکھتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایام معلومات‘ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) اور اسکے بعد دو دن (۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ) ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص ۔ باب الایام المعلومات / تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج ۶ ص ۲۶۱(

قربانی کا مفہوم کیاہے اسلام میں

اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانیاں ہے قربانی ۔ اللہ کے حبیبﷺ قربانی کے دنون میں اگر اللہ سب  سے زیادہ پسیددہ کویٓ کام ہے وہ جانور کی قر بانی کرنا ۔  جب عید الضحیٰ آےٓ ،  دو مینڈے لاےٓ گیےٓ۔ یعنی  چتکبڑے لاےٓ گیےٓ ۔ دو مینڈے  رسول اللہ ﷺ نے ذبح فر ماےٓ۔ صحابہ نے پو چھا یا رسول اللہ ﷺ قربانی اگر واجب ہے ۔ تو دو بکڑوں کی  ، رسول کریم ﷺ نے فرمایہ نہیں ۔ ایک بکڑا قربانی کے لےٓ واجب ہے ۔ میں نے ایک بکڑا اپنی  جانب سے کیا ،دوسرا میری پوری اُمت کی طرف سے ۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنّت ہے ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *